Add To collaction

Sep.2022.07 تحریری مقابلہ اوپن ٹاپک (ساتھ)

تحریری مقابلہ ۔ اوپن ٹاپک۔
💮💮💮💮💮   ساتھ  💮💮💮💮💮
نازش کے ہاتھ میں شادی کارڈ تھا اور وہ سر پکڑ کر بیٹھا تھا۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا بار بار وہ کارڈ دیکھ رہا تھا جس میں لکھا تھا   فیض۔ ہمراہ  صبا ‌
صبا اور فیض اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں ایک بچپن کا ساتھی تو دوسری طرف وہ جس نے زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں کھائی ۔اف۔۔۔۔۔۔۔ ایسی سازش!اتنا بڑا دھوکا 
نازش اور صبا ایک ہی آفس میں جاب کرتے تھے دونوں میں دوستی ہوگئی ساتھ میں لنچ کرتے صبا کے انداز و ادا سے نازش نے ہمت کی اور اظہار محبت کر ڈالا جس کے جواب میں صبا نے فرط مسرت سے اس کا ہاتھ تھام لیا ۔ دونوں کی عشقیہ داستان شروع ہو گئی۔مشک اور عشق چھپاۓ نہیں چھپتا ۔اب دوستوں کے حلقے سے نکل کر آفس کے تمام ساتھیوں تک یہ بات پہنچ گئی اور سبھی اسٹاف  واقف ہو گۓ۔اس سلسلے میں اکثر چھیڑا بھی کرتے تھے۔ 
 فیض نازش کا ہمراز تھا  اس نے اپنے پاپا کی بزنس سنبھالی ہوتی تھی وہ ایک اچھا بزنس مین بن گیا تھا بیرون ممالک میں وقت گزارتا تھا ۔
نازش۔سوچ رہا تھا  ہاں ! اس نے بتایا تھا کہ ممی نے ایک لڑکی دیکھی ہے۔  میرے لیے ان کی پسند ہی ضروری ہے اس لیے سب کچھ ‌‌‌ممی پر چھوڑ دیا ہے۔۔ نہیں نہیں فیض نے مجھے دھوکا نہیں دیا وہ تو صرف میری عشقیہ داستان سنتا ہے اس کا نام پتہ کچھ تو نہیں جانتاہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھوکا تو صبا نے دیا ہے مجھے اس راستے پر چلانے والی نے ساتھ ساتھ چلنے کے بعد اس طرح تنہا کر جاۓ گی ایسا گمان بھی نہ تھا ۔پندرہ دنوں میں کیا سے کیا ہو گیا ۔
نازش آفس کے کام سے حیدرآباد گیا ہوا تھا صبا سے‌ روزآنہ بات چیت ہو رہی تھی ۔ وہاں سے آج واپس آیا تو اس نے صبا کو کال کی اسں نے بتایا طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ وہ پریشان ہوا تو اس نے کہا وائرل فیور ہے میں اچھا محسوس کروں گی تو میں خود ہی تمہیں کال کروں گی ۔
نازش چاۓ پی کر لیٹا ہی تھا کہ فیض کے بھائی نے شادی کارڈ لا کر دی اور کہا کہ بھائی شادی سے تین دن پہلے آئیں گے لیکن آپ کو شادی کے انتظامات میں میرا ساتھ دینا ہے۔ نازش نے خوشدلی سے حامی بھری وہ جلدی میں تھا بہت جگہ کارڈ دینا ہے بھائی آج آپ آرام کر لیں ۔۔
اس کے جانے کے بعد نازش نے کارڈ کھول کر دیکھا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  دلہن کا نام صبا وسیم بنت وسیم الحق۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔والد کانام دیکھ کر وہ چکرا گیا  خود کو سنبھالا اور پھر   صبا کی سہیلی جو نازش کو بھائی کہتی تھی اسی کو فون لگایا ۔ اس سے صبا کی خیریت دریافت کی تو  وہ سٹپٹا گئی مایوس لہجے میں کہا  بھائی وہ بیمار نہیں ہے بلکہ وہ اپنے شادی کی تیاری میں مصروف ہے اس نے آپ کے ساتھ اچھا نہیں کیا ۔ایک امیر بزنس مین کو آپ پر ترجیح دی ہے ۔میں نے اسے اپ کی محبت کا واسطہ دیا مگر وہ دولت مند گھرانے کے سامنے ہماری دوستی ہماری محبت اور چاہت کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف اپنی چمکتے دمکتے مستقبل کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ حالانکہ اس کے والدین کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں ہے  اگر وہ چاہتی تو اپنی بات منوا سکتی تھی ۔ میں نے جب سمجھانے کی کوشش کی تو میرے ساتھ جھڑپ ہوگئ ۔ اس نے آپ کے ساتھ  کو بیوقوفی اور  جذباتی فیصلہ بتایا ۔۔۔۔۔۔۔۔ !ا
نازش نے تمام باتیں سنیں اور بہت مشکل سے خود کو سنبھالا مگر آنسو پر قابو نہ رکھ سکا ۔۔ وہ کہہ رہی تھی بھائی میں تو نہیں جاؤں گی نازش نے ہمت جٹا کر کہا ہم دونوں ساتھ چلیں گے تم میرے لئے پریشان نہ ہو بہن!  میں ٹھیک ہوں ۔ تم بھی اپنا خیال رکھنا بعد میں بات ہوگی ۔
 نازش نے اپنے دوست کی خوشی کا پورا خیال رکھا اس نے طے کر لیا کہ زندگی کے اس باب کو وہ جلا کر راکھ کر دے گا وہ اپنے دوست کو شرمندہ نہیں ہونے دیگا ۔اس نے صبا کو کال کر نا چھوڑ دیا ۔
فیض آگیا دونوں دوست  گرمجوشی سے ملے ۔فیض نے جب اس سے کہا یار اسے بھی شادی کی دعوت دے دو نا! اسی بہانے ہم سب مل لیں گے ۔ نازش مسکرایا اور کہا ارے یار تو نے  بھی میری باتوں کو سچ مان لیا ۔ اب دیکھ تو یہاں نہیں تھا تیرے ‌‌‌‌‌بنا انجوائے کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا تو میں نے یہ کہانی بنانی شروع کی تاکہ پردیس میں تو میرے خیال سے انجوائے کر اور میں تجھے خوش کر کے خوش رہوں ! 
اچھا یہ  بات ہے تو مجھے یوں ہی سناتا رہا اور میں نے سوچا کہ میرے یار نے اپنا پارٹنر ڈھونڈ لیا ہے ۔۔ خیر کوئی بات نہیں !   میری بارات اور ولیمہ میں تیری پسند کی مل جائے ۔۔۔۔۔‌‌۔۔۔۔!
ادھر صبا خوش تھی اچھا ہوا نازش نے خود ہی کال کرنا چھوڑ دیا  چلو ٹھیک ہے۔  اب مجھے اسے بے وفا  ثابت کرنا آسان ہو گا ۔میں اس سے گلہ کروں گی کہ تم نے رابطہ نہیں رکھا تو میں شادی کے لئے مجبور کر دی گئی ۔یہ سوچ کر وہ فاتحانہ انداز میں اپنے زیورات اور ملبوسات جو فیض کے گھر سے آۓ تھے سمیٹنے لگی ۔
 نکاح کےبعد رخصتی ہوگئی ۔آج ولیمہ تھا۔آج سب رشتہ دار  دوست احباب کی دعوت تھی اور سب  دلہن کو بھی  دیکھیں گے ۔ صبا سجی سنوری زیورات سے لدی ہوئی اسٹیج پر بیٹھی تھی ۔نکاہ نیچے کئے وہ اپنی قسمت پر نازاں  مسکراۓ جا رہی تھی ۔ اسے فیض کی آواز سنائی دی ۔صبا ان سے ملیۓ  ! ‌ یہ ہے میرا بچپن کا دوست ، میرا یار  میرا ساتھی نازش ۔۔ صبا نے سر اٹھایا  ایسا لگا پیروں تلے زمیں نہیں    نازش نے اجنبی کی طرح مبارک باد دی اور تحفہ پیش کیا ۔ صبا کی آنکھوں میں حیرانی کی جگہ خوف تھا اس نے غور سے نازش کو دیکھا جو بڑے اطمینان اور سکون سے فیض کی امی سے باتیں کر رہا تھا ۔فیض کی امی  اس سے کہہ رہی تھی۔   بیٹا تم نے بخوبی اپنے دوست کی تقریب کا انتظام کیا  تمہارے انکل تو بڑے اطمینان اور بے فکر ہوۓ مہمانوں کے ساتھ بیٹھے ہیں ۔ بالکل میرے بیٹے کی طرح ساتھ نبھا رہے ہو۔ 
۔نازش نے کہا ۔۔۔۔  آنٹی یہ تو میرا فرض تھا میرے جگری دوست کی شادی ہے اس کے لئے تو جان بھی قربان ہے۔
 فیض کی أمی نے مسکرا کر کہا۔   خوش رہو ، سلامت رہو بیٹا   ‌   اللہ تمہاری دوستی سلامت رکھے اور تم دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں ساتھ رہو۔
اسں  نے آمین کہا اور اسٹیج سے اتر گیا 
نازش خوش اخلاقی سے مہمانوں کی خاطر تواضع میں لگا ہوا تھا  اور صبا اپنی کھسیانی ہنسی کے ساتھ اسٹیج پر دلہن کا کردار نبھا رہی تھی ۔۔۔۔!!


✍️۔۔۔🍁سیدہ سعدیہ فتح🍁 








   15
7 Comments

Asha Manhas

08-Sep-2022 12:15 PM

بہت بہت عمده👍👍

Reply

Muskan Malik

07-Sep-2022 08:41 PM

Super 👌👌👍👍

Reply

Shnaya

07-Sep-2022 08:25 PM

👏👌

Reply